شعبہ اردو حمیدیہ کالج میں 11نومبر سے اردو ہفتہ جوش و خروش کے ساتھ منایا جا رہا ہے:ڈاکٹرارجمندبانوں

 بھوپال: شعبہ اردو حمیدیہ کالج میں 11نومبر سے اردو ہفتہ مسلسل نہایت جوش و خروش کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ 13نومبر کوتقریر ، غزل اور ترانہ کا مقابلہ عمل میں آیا ۔ پروفیسر ارجمند بانو افشاں کی نظامت میں پروگرام کی ابتداءتقریر کے مقابلہ سے ہوئی جس میںایم ۔ اے ۔ اردو سال اول کے طالب علم سید سرفراز علی نے اقبال کی شخصیت اور سیرت پر روشنی ڈالی ، بی اے سال اول کے طالب علم محمد فاروق نے اپنی تقریر میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیا ، ریسر چ اسکالر محمد سلمان انصاری برتر نے اردو غزل کے مستقبل پر بات کی ایم ۔ اے ۔ سال اول کے طالب علم سالم خان نے اقبال کے خیالی پرندے ”شاہین“ پر اپنے خیالات پیش کیے ۔ اس کے بعد علامتی مشاعرے کا انعقاد ہوا پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے پروفیسر ارجمند بانو افشاں نے بتایا کہ ” اس علامتی مشاعرہ میں تمام نامور شعراءاور اساتذہ کا کلام طلبہ کے ذریعہ پیش کیا جائے گا اور اس میں مشاعرے کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اساتذہ کے ساتھ موجودہ دور کے شعراءکا کلام بھی آپ طلبہ کے کی زبانی سنیں گے ہماری کوشش ہے کہ طلبہ کی نشست و برخاست اور پڑھنے کا انداز انہیں شعراءکی طرح ہو جن کا کلام وہ پیش کر رہے ہیں گویا آپ خود کوان شعراءکی محفل میںہی محسوس کریں گے ۔ انہوں نے مزید کہا ان میں سے بیشتر شعراءاور اساتذہ آج ہمارے درمیان نہیں ہےں لیکن آپکا شعری ذوق دیکھ کر وہ آسمان سے نیچے اتر آئے ہیں اور اپنے کلام سے آپ کو نواز رہے ہیں “۔ سب سے پہلے محمد دانش خان نے اقبال اشہرکے انداز میں ان کی تخلیق 
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی 
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی
پڑھی جسے بے حد پسند کیا گیا ۔اس کے بعد محمد بلال نے منور رعنا کی غزل 
تمام عمر ہم ایک دوسرے سے لڑتے رہے 
مگر مرے تو برابر میں جا کے لیٹ گئے 
 پیش کی ، محمد انس عالم انصاری نے احمد فراز کی غزل 
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
 ترنم کے ساتھ پیش کی ۔میر تقی میر کا کلام سید سرفراز علی نے پیش کیا ابتدا میںمیر کی رباعی 
درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
 رنگ رو جس کے کبھو منھ نہ چڑھا میں ہی ہوں
اپنے کوچے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات
 وہ جگر سوختہ و سینہ جلا میں ہی ہوں
 داﺅد خان نے آتش کی غزل 
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
  سنائی ۔آمحمد اشرف نے مومن کی غزل 
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
 پڑھی ، مصباح الدین نے راحت اندوری کی غزل 
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
 پڑھی ، محمد فاروق نے کیف بھوپالی کی غزل 
کون آیا ہے یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواﺅں نے ہلایا ہوگا
 پیش کی اور بے حد داد وصول کی ،محمد محیط نے تہذیب حفی کی غزل 
ترا چپ رہنا میرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دی کی گلا بیٹھ گیا 
 پڑھی ،محمد شکیل خان نے فراق گورکھپوری کے بہت سارے خوبصورت اشعار پیش کیے اور غزل 
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں 
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں 
 بھی پیش کی ، محمد سلمان انصاری برتر جو غالب کا رول ادا کر رہے تھے غالب کی غزل 
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا 
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
  پڑھی اور اس سے پہلے میر کو مخاطب کر کے یہ شعر بھی پڑھا ”ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا“ اس شعر کو سن کے میر صاحب ہنس پڑھے اور پوری محفل زعفران زار ہو گئی اور مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا ۔مشاعرے کی صدارت صدر شعبہ ¿ اردو پروفیسر فرزانہ غزال نے کی اور نظامت کے فرائض پروفیسر ارجمند بانو افشاں نے بڑے دلنواز انداز میں ادا کئے ۔ واضح رہے کہ حمیدیہ کالج کے پرنسپل جناب پی۔ کے۔ جین صاحب اردو سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور ہمیشہ تمام محفلوں میں مسلسل موجود رہ کر طلبہ اور پروگرام کا انعقاد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔اس سے قبل حمد اور نعت کے پروگرام کو بھی انہوں نے رونق بخشی اور اپنی تقریر سے بچوں کو حوصلہ دیا ۔اس کے بعد ترانہ کا مقابلہ عمل میںآیا اس میں ٹیم الف میں : مصباح الدین ، عبدالمحیط،انس عالم ، سیف ، اشرف، سالم خان نے اقبال کی مشہور نظم ”بچے کی دعا“ کو پیش کیا ۔اور ٹیم ب میں محمد شکیل خان، محمد دانش خان ، سلمان انصاری برتر ، سید سرفراز علی ، داﺅد خان ، بلال خان ،محمد عامر نے ترانہ ¿ ہندی سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا پیش کیا ۔اور تیسری ٹیم میں شعیب علی ، عدنان، شاہ ویز، انس خان، زید علی ،محمد آطف ،ساجد خان، سرفراز عالم نے ”ہندوستانی بچوں کا قومی گیت“ پیش کیا۔ اس پروگرام میں روزنامہ نیا نظریہ کے نامہ نگار محمد اسد خان نے بحیثیت مہمانِ خصوصی شرکت کی اور طالب علموں کی کوششوں کو بہت سراہا ۔ آخر میں ڈاکٹر انیسہ خاتون نے سب کا شکریہ ادا کیا ۔